ازمار
اجمال سنی اسلامی قانون کے چار ستونوں میں سے ایک
ہے اور اس سے مراد کسی خاص مسئلہ پر فقہاء کی متفقہ قانونی
را??ے ہے۔ سنی فقیہ احمد نے اسے مجتہدوں (اسلامی قانون کے مستند علماء) کی متفقہ
را??ے سے تعبیر کیا
ہے جو محمد کی وفات کے بعد مسلم کمیونٹی سے متعلق مسائل پر فیصلہ کر سک
تے ??یں۔ انصاری اس کی تعریف مذہبی نظریات پر محمد کی برادری کے اتفاق کے طور پر کر
تے ??یں۔ اس ?
?ی جڑیں اس بات میں ہیں جو محمد نے ایک بار کہا تھا: "میری قوم کبھی بھی باطل سے سمجھوتہ نہیں کرے گی۔" ابو بکر، پہلے خلیفہ تھے جنہیں سنیوں نے تسلیم کیا تھا، محمد ?
?ی جانشینی کے لیے مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا۔ جب نہ قرآن اور نہ سنت نئے مسائل حل کر سک
تے ??یں تو مجتہد جو قانون سے واقف ہیں وہ فیصلہ کر سک
تے ??یں اور مسائل پر
را??ے دے سک
تے ??یں۔ اسلامی معاشرے کی ابھرتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ازم کے ذریعے نئے قوانین بنائے جا سک
تے ??یں۔
اجمال کے نفاذ کی تفصیلات اور تاکید کے بارے میں مختلف مکاتبِ قانون کی مختلف آراء ہیں۔ مالکی مدینہ کے اجماع پر زیادہ زور دی
تے ??یں کیونکہ یہ محمد کا وطن
ہے اور ان کا عقیدہ
ہے کہ ان کا اجماع محمد کی مرضی کو جاری رکھتا ہے؛ حنبلی مکتب صحابہ کے اجماع پر زیادہ زور دی
تے ??یں؛ شافعی اور حنفی مکاتب یہ سمجھ
تے ??یں کہ اجماع نہ صرف امت کے کسی بھی زمانے پر لاگو ہوتا ہے۔ اکثر سنی علماء کا خیا?
? ہے کہ بارہویں شیعہ، زیدی اور عبادی کی آراء اہم نہیں ہیں اور اس لیے ان پر غور نہیں کیا جائے گا، تاہم انصاری اور امیدی جیسے علماء نے اس بات کی نشاندہی کی
ہے کہ اس سے پہلے کہ ایک مؤثر اتفاق
را??ے قائم ہو، دوسرے غیر سنی گروہوں کی آراء اب بھی اہم ہیں۔